دن کا ہی ایکسپیرینس کہ میرے ساتھ اتنا اچھا خاصا ہو گیا۔
پورے سکول کو ہمیشہ یہ بات یاد رہی ۔ میں ساتویں کلاس
تک اسی سکول میں پڑھتا رہا لیکن سر خالد کی وہ جو پہلے دن والی مار تھی وہ مجھے کبھی نہ بھولی اور پہلے دن سے ہی میں سر کی ریڈ لسٹ میں آ گیا ۔ پھر جب کبھی بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو پرنسپل صاحب مجھے مارتے بھی تھے اور میرے گھر بھی بتا دیا کرتے تھے۔ میں کافی ان چیزوں سے تنگ آ چکا تھا اور گھر جاتے ہی میرا جب سکول جانے کو دل نہ کرتا تھا تو میں ابو سے کہتا کہ آج کے دن مجھے چھٹی کرنے دیں۔ ابو کہتے نہیں آج کے دن تم چھٹی نہیں کرو گے اگر تم میرے بیٹے ہو ضدی ہو تو میں تمہارا باپ ہوں۔ وہ مجھے خوب مارتے تھے کہ آج کا دن آج تو میں تمہیں سکول بھیج کے ہی رہوں گا چاہے جو بھی ہو جائے۔ کل تم چھٹی کر لینا۔ کیونکہ میری بھی آج ضد ہے کہ میں نے تمہیں سکول بھیج کے رہنا ہے میں جتنا روتا چلاتا جو کچھ کرتا ابو پکڑ کے مارتے بھی تھے اور گھسیٹتے ہوئے سکول لے جاتے تھے۔
میرے ساتھ دوسری کلاس تک تو یہی چلتا رہا کیونکہ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ مجھے سکول کی عادت پڑ گئی۔ میں چھٹیاں کم کرنے لگا جب میں چوتھی کلاس میں پہنچا تو میرے خالو میرے استاد بن گئے انہوں نے پھر میری اچھی خاطر تواضع کی۔ انہوں نے مجھے سب کچھ سمجھایا سکھایا ٹینسز پڑھائے میری انگلش اتنی زیادہ اچھی ہو گئی کہ میں ایک میڈیم سٹوڈنٹ سے ایک ٹاپر سٹوڈنٹ بن گیا اور میں کافی حد تک چیزوں کو بہتر کرنے لگا میری چھٹیاں بھی بند ہو گئی کیونکہ مجھے سب کچھ اچھا لگنے لگا تھا۔ میں پڑھنے والا ہو گیا تھا مجھے وہ چیزیں آتی تھی جو میرے سکول میں پڑھنے والے آٹھویں کے بچوں کو بھی نہیں آتی تھی۔ مجھے اس چیز کی بڑی خوشی تھی اور میں فخر محسوس کرتا تھا کہ میں نے اتنی محنت کی اور سب کچھ کیا۔
لیکن ایک چیز سے ہمیشہ مجھے ساری زندگی چڑھ رہی اور وہ چیز تھی کہ کلاس ورک کے ساتھ ہوم ورک کرنا پڑتا تھا۔ اور وہ بالکل مجھے پسند نہیں تھا۔ جب بھی چھٹیاں ہوتی، دو چھٹیاں ہی کیوں نہ ہوتی ہمارے ذمے اتنا زیادہ کام لگ جاتا کہ کرتے کرتے بندہ مر جاتا اور میری عادت تھی کہ کبھی بھی میں وہ کام نہیں کرتا تھا۔ انہیں بھی اس چیز سے بڑا غصہ تھا کہ میں کام کر کے نہیں آتا وہ ہمیشہ کہتے تھے ۔کہ ہوم ورک کیا کرو میں کہتا نہیں مجھے نہیں کرنا یہ کام پھر وہ مجھے مارتے تھے اور میں گھر جا کے امی کے پاس روتا تھا۔ کیونکہ جیسا کہ وہ امی کے کزن تھے تو امی بھی نے انہیں کہتی تھی کہ میرے بیٹے کو نہ مارا کریں۔ مگر وہ کہتے اس کی جو حالت ہے یہ کام نہ کرنے کی یہ میں نے ختم کرنی ہے۔ یہ کلاس میں ٹاپر ہے سب کچھ کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں گھر میں جب بات آتی ہے ہوم ورک کی اس نے کبھی بھی کام مکمل نہیں کیا تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ وہ مجھے بہت زیادہ مارتے تھے۔
ایک دن تو میں نے روتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھے گدھوں کی طرح مارا جاتا ہے میں تو انسان ہوں مجھے نہ ماریں میں کون سا نہیں پڑھتا۔ جو چیز مجھ سے پوچھی جاتی ہے میں بتاتا ہوں۔ مجھے سب کچھ آتا ہے پھر بھی مجھے مارتے ہیں۔ وہ کہتے تھے تمہیں پڑھائی کی وجہ سے کبھی بھی مار نہیں پڑی سوائے اس کے کہ تم کبھی بھی ہوم ورک کر کے نہیں آتے ۔ اور میری بھی عادت بن چکی تھی اور مجھے سخت نفرت ہو گئی کہ میں کوئی بھی ہوم ورک کر کے جاؤں کیونکہ مجھے انتہائی قسم کی جو سستی ہوتی تھی وہ صرف اور صرف اسی چیز کی ہوتی تھی کہ مجھے ہوم ورک کیوں ملا ہے۔
آٹھویں جماعت تو یہی سب چلتا رہا مگر جب آٹھویں جماعت کے پیپر دے کر آیا تو میرے پاس موبائل آ گیا تو اس نے میری زندگی کو تھوڑا اور مشکل بنا دیا تو حالات ذرا پیچیدہ ہو گئے۔ اگلی قسط میں میں آپ کو بتاؤں گا کہ آٹھویں جماعت کے بعد میری زندگی میں کیا موڑ آیا۔
0 Comments